Raheem Jaan

Raheem Jaan

Shenakhti Card Nahi (not an ID card), 2024

Opaque watercolor on handmade paper
18.5” x 13.5”

 

I Don’t Know, 2024

Opaque watercolor, gold leaf on handmade paper

18” x 15”

 

A member of the Hazara community, Jaan has spent eight years living without an identity card, despite being born and educated in Pakistan.  In Shenakhti Card Nahi (not an ID card), Jaan questions the seemingly universal rights of citizenship by blurring the ID card beyond legibility. By replacing the ubiquitous phrase, “If you find the missing card, put it in the nearest letterbox” with “on finding lost identity…,” the artist criticizes the casual indifference of governmental bureaucracies towards human lives.  I Don’t Know adapts the conventions of Indo-Persian miniature painting, in which the central subject is framed by a decorative border, but subverts them painting a blurred self-portrait, while emphasizing the border with intricate floral and vegetative patterns. Similar to Feroza Hakeem’s work, also on view in Akbari Mahal, Jaan uses miniature painting, traditionally associated with ruling Mughals and Persians, to express the plight of the long-oppressed and displaced Hazaras.

 

Raheem Jaan (b. 1994, Quetta) graduated from the National College of Arts with a major in Indo-Persian miniature paintings, and currently lives & works in Islamabad. His work mainly deals with issues of social justice, displacement and identity, drawing from his autobiographical experiences of navigating the world while being undocumented. Jaan’s works have been exhibited at O Art Space, Artsoch Gallery, and Ejaz Gallery in Lahore, and PNCA in Islamabad. 

 

رحیم جان

شناختی کارڈ نہیں (not an ID card)، 2024

روشن واٹر کلر، ہاتھ سے تیار کردہ کاغذ پر سنہری پتا

18.5” x 13.5” 

آئی ڈونٹ نو، 2024

روشن واٹر کلر، ہاتھ سے تیار کردہ کاغذ پر سنہری پتا

18” x 15”

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رحیم جان نے آٹھ سال بغیر شناختی کارڈ کے گزارے، حالانکہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کی۔ اپنے فن پارے “شناختی کارڈ نہیں” میں، وہ شہریت کے عالمی حقوق پر سوال اٹھاتے ہیں اور شناختی کارڈ کو دھندلا کر ناقابلِ شناخت بناتے ہیں۔ “گم شدہ کارڈ ملنے کی صورت میں، اسے قریبی لیٹر باکس میں ڈال دیں” جیسے عام جملے کو بدل کر “گم شدہ شناخت ملنے پر…” کرتے ہوئے، وہ حکومتی بیوروکریسی کی انسانی زندگیوں کے تئیں لاپرواہی پر تنقید کرتے ہیں۔ فن پارہ “آئی ڈونٹ نو” میں، رحیم جان نے انڈو-فارسی منی ایچر پینٹنگ کی روایتی تکنیک کو اپنایا ہے، جس میں مرکزی کردارکو خوبصورت بارڈر سے گھیر لیا جاتا ہے۔ تاہم، وہ اس تکنیک کو توڑتے ہوئے ایک دھندلا سیلف پورٹریٹ تخلیق کرتے ہیں، جب کہ بارڈر کو پیچیدہ پھولوں اور نباتاتی نمونوں سے نمایاں کرتے ہیں۔ یہ طریقہ فیروزا حکیم کے کام سے مشابہت رکھتا ہے، جو اکبری محل میں بھی نمائش کے لیے موجود ہے۔ دونوں فنکار منی ایچر پینٹنگ، جو کبھی مغلوں اور فارسیوں کے اقتدار کی علامت سمجھی جاتی تھی، کو ہزارہ برادری کے دیرینہ مظالم اور بے دخلی کی کہانی بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رحیم جان (پیدائش 1994، کوئٹہ) نے نیشنل کالج آف آرٹس سے انڈو-فارسی منی ایچر پینٹنگز میں گریجویشن کی اور اس وقت اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کا کام بنیادی طور پر سماجی انصاف، بے دخلی اور شناخت کے مسائل سے متعلق ہے، جو ان کے قانونی دستاویزات کے بغیردنیا کے تجربات کو اپنی خودنوشت کہانیوں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ ان کے فن پارے او آرٹ اسپیس، آرٹسوچ گیلری، اعجاز گیلری، لاہور، اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے)، اسلام آباد میں نمائش کے لئے پیش کیے جا چکے ہیں۔