Younus Nomani
An Orange Leaf in a green tree, Kashmir
Mixed-media installation
Children of Kashmir playing cricket somewhere near Mantalai, located in between journey to Srinagar from Jammu city. Surrounded by mountains and cliffs that makes our eye moment dance and reach the valleys and skies of Kashmir, were blessed by presence of nearby village children who found the ground empty after a long time, and came to play cricket. The serenity of the moment was too much to bear till the kids stopped playing abruptly after spotting a camera in my hands. But as soon as they realized I was not a threat, the beautiful picture resumed to play before my eyes. I sat there to enjoy it as the fear of never witnessing it again began to rise in my gut, for I overheard a kid’s melancholic statement to continue playing because none of them knew when will they get a chance to play on these open grounds that were confined to Army Vehicles. Truth be told, on my way back when I wished to witness the view again, I couldn’t find it. The skittish feeling has finally taken its troll right before my eyes, in person. I saw the land devastated with the energy and human hatred bought upon it by the Army troops. The thing that was not visible but existed when the kids were playing, has now taken a form and it is growing stronger everyday. I moved away, with a heavy heart towards Delhi, where it is somewhat safe.
یونس نعمانی
کشمیر کے بچے جموں سے سرینگر کے راستے منت ئی کے نزدیک کسی جگہ پرکرکٹ کھیل رہے تھے۔ پہاڑ اور چٹانوں جنہیں دیکھ کر آنکھیں رقص کرنے لگیں ، جو کشمیر کی وادیوں اور آسمانوں تک پھیلی ہوئی تھیں کے بیچوں بیچ ان بچوں کی جھلک دیکھنا نصیب ہوا جنہیں طویل عرصے بعد خالی میدان ملا تھا جہاں وہ کرکٹ کھیلنے آئے تھے ۔ میں حیرت انگیز حد تک ُپرسکون لمحے کی قید میں تھا کہ بچوں نے میرے ہاتھوں میں کمیرہ دیکھ کر اچانک کھیلنا بند کر دیا۔ مگر جونہی ُانہیں احساس ہوا کہ میں ان کے لیے کسی خطرے کا سبب نہیں ہوں دلکش منظر میری آنکھوں کے سامنے یپھر سے شروع ہو گیا۔ میں ُاس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بیٹھ گیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میں اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکوں کیونکہ میں نے ایک بچے کی کھیل جاری رکھنے کی اداس دل بات سن لی تھی۔ ُان میں سے کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ ان کھلے میدانوں میں دوبارہ کب کھیل سکیں گے جو فوجی گاڑیوں کے لیے محدود تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر میں وہ منظر کو پھر دیکھنا چاہتا تھا مگر مجھے وہ نظر نہ آیا۔ خوف کا احساس میری آنکھوں کے سامنے جلوہ افروز تھا۔ میں نے فوجی دستوں کی قوت اور انسانی نفرت سے تباہ حال زمین دیکھی۔ جو چیز بچوں کے کھیل کے وقت موجود تھی مگر نظر نہ آ رہی تھی، اب وہ اُبھر کر سامنے آ گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ توانا ہوتی جا رہی ہے۔ میں ُبجھے ہوئے دل کے ساتھ دہلی کی طرف چلا گیا جوکہ قدرے محفوظ ہے۔
Text by the artist