Michael Rakowitz

The Ballad of Special Ops Cody, 2017
Video, duration: 14 min 42 secs

The Ballad of Special Ops Cody takes as its starting point a 2005 incident in which an Iraqi insurgent group posted a photograph online of a captured US soldier named John Adam. The group threatened to kill him if US-held prisoners in Iraq were not set free. The US military took the ultimatum seriously but were unable to identify John Adam within their ranks. As it turns out, this soldier was actually Special Ops Cody, a US infantry action figure made to exacting detail. These toys were sold exclusively on US military bases in Kuwait and Iraq and were often sent home to the children of active soldiers, functioning as a surrogate for their fathers deployed abroad. Rakowitz plays off this story and gives life to the figurine through the production of a stop motion animation filmed at the University of Chicago’s Oriental Institute, which has had a relationship with the National Museum of Iraq since the 1930s. In the animation, Special Ops Cody enters the Institute’s vitrines, which hold Mesopotamian votive statues taken during Western colonial exploits. Left behind by worshippers, these votive statues, with their hands clasped in prayer, served as surrogates for those who visited the temples of their deities. Although Cody offers the statues liberation, urging them to leave their open vitrines and return to their homes, the statues remain, petrified and afraid, unable to return in the current context.

مائیکل راکووٹز

دی بیلڈ آف اسپیشل اوپس کوڈی2017 کے آغاز میں 2005 کا ایک واقعہ دکھایا گیا ہے جس میں ایک باغی گروہ یرغمال بنائے گئے جان ایڈم نامی امریکی فوجی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر پوسٹ کردی۔ اس گروہ نے دھمکی دی کہ اگر عراق میں امریکہ کی زیر حراست قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ امریکی فوجی کو قتل کردیں گے۔ امریکی فوج اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیتی ہے مگروہ جان ایڈم کیبطوِرامریکی فوجی شناخت کرنےسےقاصررہی۔ بعدمیں پتاچلا کہ یہ فوجی درحقیقت امریکی انفنٹری کا ایک فرضی مجسمہ اسپیشل کوڈی اوپس تھا جسے انتہائی مہارت سے بنایا گیا تھا۔ یہ کھلونے خاص طور پرکویت اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرفروخت کیے گئے تھے اور انہیں اکثر بیرون ملک تعینات فوجیوں کے بچوں کو بھیجا جاتا تھا۔ یہ کھلونے ان بچوں کے باپ کے متبادل کا کام کرتے تھے۔

ریکوِوٹزاس کہانی کوبھرپورطریقےسےنبھاتاہےاوریونیورسٹی آف شکاگوکےاوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ، جس کا 1930 سے عراق کے قومی عجائب گھر سے تعلق رہا ہے، میں فلمائی گئی ایک سٹاپ موشن اینی میشن فلم کے ذریعے مجسمے کو زندگی دیتا ہے۔ اینی میشن میں اسپیشل اوپس کوڈی انسٹی ٹیوٹ کے شیشے کے صندوقوں میں داخل ہوتا ہے جن میں موسوپوٹیمین (عراقی) تہذیب سے تعلق رکھنے والے نذرشدہ مجسمے موجود ہیں جو مغربی نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کے دوران حاصل کیے گئے تھے۔ عبادت گزاروں سے آگے موجود یہ نذر شدہ مجسمے، جن کے ہاتھ عبادت کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے متبادل کا کام کرتے تھے جو اپنے خدا کے مندروں پر حاضری دیتے تھے۔ اگرچہ کوڈی مجسموں کو آزادی کی پیشکش کرتا ہے اور انہیں اپنے کھلے ہوئے شیشے کے صندوقوں کو چھوڑ کر گھروں کو لوٹ جانے پر آمادہ کرتا ہے، تاہم مجسمے خوفزدہ رہتے ہیں، وہ موجودہ صورتحال میں واپس جانے کے قابل نہیں ہوتے۔

 

 

 




Commissioned by the Museum of Contemporary Art Chicago
Artwork courtesy Sharjah Art Foundation Collection