Shezad Dawood
Encroachments, 2019
Multi-media installation, VR environment
The narrative behind Encroachments is a meditation on the idea of sovereignty, private property and the politics of space between Pakistan and the US since partition in 1947. The derogatory term ‘Encroachment’ is used to designate illegal structures built onto the fabric of existing private and state infrastructure in Pakistan. These ad-hoc encampments become social and commercial apparatuses for the lower classes, and reflect a grass-roots entrepreneurialism and reclamation of space. The artist expands on this idea of encroachment to reflect on other parallel readings of space and architecture, as contested sites of memory and history, through a virtual reality environment and a set of new paintings, that explore visceral tropes such as Pakistani beat bands in the late 60s and the terrazzo flooring that became ubiquitous in Pakistan from the 1950s. The central motif of the VR is Austrian-American Modernist architect Richard Neutra’s 1959 US Embassy (later Consulate) in Karachi, which was part of the US State Department’s post-war Embassy-Building Programme. On the journey there and beyond, the user passes through various parallel environments: from iconic colonial-era Urdu-language bookshop Ferozsons on Mall Road in Lahore; through a secret passageway into a 1980s video game arcade that makes reference to anti-Soviet propaganda that fuelled a large amount of early game design evolving against the backdrop of the Soviet-Afghan war.
شزاد داؤد
تجاوزات کے پیچھےبیانیہ دراصل اقتداِراعلٰی، نجی ملکیت اور 1947 میں تقسیم کےبعد سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان زمین و مقام کی سیاست پر ایک گہری سوچ بچار ہے۔
تضحیک آمیز ِاصط ح ‘تجاوزات’ پاکستان میں ان غیرقانونی ڈھانچوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو موجودہ نجی و ریاستی ڈھانچے پر تعمیر ہوتےہیں۔ یہ وقتی تجاوزات نچلے طبقوں کے سماجی اور تجارتی ذرائع کا روپ دھار لیتی ہ اور نچلی سطح کی سرمایہ کاری اور جگہ کی واگزاری کی عکاسی کرتی ہیں۔فنکارنے یادداشت اورتاریخ کےمتنازعہ مقامات کےطورپرجگہ اورفِن تعمیر کے متوازی نمونوں کو آشکار کرنے کے لیے تجاوزات کا تصور پیش کیا ہے ۔ حقیقی ماحول اور کئی نئی پینٹنگز کے ذریعے جنہوں نے معنوی استعارے آشکار کیے جیسے کہ 1960 کی دہائی کے اواخرمیں پاکستان میں بیٹ بینڈز اور 1950 کی دہائی سے پاکستان میں ناپید چپسی فرش۔
وی آر کا مرکزی خیال آسٹروی۔ امریکی ِجدت پسند معمار رچرڈ نیوٹرا کا کراچی میں 1959 میں ڈیزائن کردہ امریکی سفارت خانہ (جو بعد میں قونصلیٹ بنا) تھا۔ جو امریکی اسٹیسٹ ڈیپارٹمنٹ کےایمبیسی بلڈنگ پروگرام کاحصہ تھا جسےامریکہ نےجنِگ عظیم دوئم کے بعد شروع کیا تھا۔ اس عمارت اور اس سے آگے کے سفر کے دوران فرد کا کئی متوازی ماحولیات سے واسطہ پڑتا ہے: ہور م مال روڈ پر سامراجی دور کی معروف اردو زبان کی دکان فیروزسنز سے، ایک خفیہ راستے کے ذریعے 1980 کی دہائی کی ایک ویڈیو گیم آرکیڈ تک جو سوویت مخالف پراپیگنڈہ کی یاد د تا ہے جس نے سوویت۔ افغان جنگ کے تناظر م گیم کی ڈیزائن سازی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
Co-Commissioned by Sharjah Art Foundation and New Art Exchange Nottingham
Special Thanks to the Hashoo Group, Gul Ahmed, EMI Pakistan